ہر پاکستانی کے لیۓ ١٤ اگست خوشی کا دن ہوتا ہے- ورکنگ کلاس کے لیۓ چھٹی کی خوشی، بچوں کے لیے جھنڈیوں اور جشن کی خوشی، افواج پاکستان کے لئے اپنی قوم کے سامنے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کی خوشی- لیکن ان سب سے بڑھ کر ہوتی ہے آزادی کی خوشی-
٢٠١٤ کا ١٤ اگست کچھ اور ہی رنگ سے آیا- جشن آزادی کی تقریبات پہلی بار رات کے وقت منعقد ہوئیں جس میں وزیرآعظم نے تقریر بھی پریشانی کے عالم میں پڑھی- اس پریشانی کا سبب پاکستان تحریک انصاف کا آزادی مارچ اور پاکستان عوامی تحریک کا انقلاب مارچ تھا- تحریک انصاف انتخابی دھاندلی کا نعرہ لگاتے ہوے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے استعفوں کے ساتھ ساتھ اسمبلیوں کو توڑ کر مڈٹرم انتخابات کے اعلان ، انتخابی اصلاحات کے نفاذ اور صاف شفاف انتخابات کے انقعاد جسے مطالبات لے کر سامنے آئی ہے- پاکستان عوامی تحریک کے قائد علامہ طاہرالقادری نے انقلاب کا نعرا ٢٠١٣ میں لگایا- کینیڈا سے چھٹیوں پر آ کر عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا اور اس وقت کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے "مبارک ہو، مبارک ہو" کی نوید سناتے ھوۓ واپس کینیڈا روانہ ہو گئے- اس سال دوبارہ ١٤ اگست کو ہونے والے انقلاب مارچ کی قیادت کا اعلان کیا-
١٧ جون کو جب عوامی تحریک کے کارکنوں نے جب پولیس کو علامہ صاحب کے گھر کے باہر لگے بیریر ہٹانے سے روکنے کی کوشش کی تو پولیس کی فائرنگ سے ١٤ افراد جان بحق اور ٩٠ افراد زخمی ھوۓ- ریاستی دہشت گردی کا ایک خوفناک مظاہرہ کیا گیا-
١٤ اگست کو ڈاکٹر طاہرالقادری، عوامی تحریک اور عمران خان، تحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ انتہائی سست راوی سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہو گئے-
اسلام آباد کے بیشتر داخلی اور خارجی راستوں کو کنٹینروں سے بند کر دیا گیا- حکومتی بیانات اور اقدامات سے ایسا معلومہوتا تھا کہ وہ مارچ کے شرکاء سے سختی سے نمٹنے کا ارادہ رکھتی ہے- لیکن الله کا شکر ہے کہ حکومت نے اپنا رویہ بدلا اور جب یہ دونوں مارچ اسلام آباد پہنچے تو رکاوٹیں ہٹا دی گئیں اور انہیں اپنی پسند کی جگہوں پر دھرنا دینے کی اجازت دے دی گئی-
پاکستان تحریک انصاف نے دھرنے کے لئے آبپارہ چوک کا انتخاب کیا اور جہاں عمران خان نے پہلے دن آزادی کے جشن کا اعلان کیا اور دوسرے دن سول نافرمانی کی تحریک کا نعرہ لگا کر عوام کو وفاقی ٹیکسز، بجلی اور گیس کے بل ادا نہ کرنے کا حکم دیا-
علامہ طاہرالقادری نے خیابان سہروردی پر پڑاؤ ڈالا اور پرجوش تقاریر میں بلوچستان سے لیکر فاٹا تک کے تمام مسائل کا حل پیش کر ڈالا- انتخابی اصلاحات کے ساتھ ساتھ شریف برادران کو ١٤ کارکنوں کے قتل کا ذمہ دار ٹہراتے ھوے ان کے استعفوں کے ساتھ گرفتاری کا مطالبہ سامنے رکھا-
١٨ اگست کو دونوں رہنماؤں نے مارچ کے شرکاء کی اگلی منزل ریڈ زون کو قرار دیا- اس اعلان کے بعد حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی اور وزارت داخلہ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا- پریس بریفنگ میں چودھری نثار نے ریڈ زون کو ریڈ لائن قرار دیا اور کسی کو وہاں داخلے کی اجازت نہ دینے کے عزم کا اظہار کیا-
ریڈ زون کو کنٹینرز لگا کر سیل کر دیا گیا اور پولیس، رینجرز، ایف سی اور فوج کی بڑی تعداد ریڈ زون کی حفاظت کے لئے تعینات کر دی گئی- ١٩ اگست کو علامہ طاہرالقادری اور عمران خان اپنے اپنے کارکنوں کے ساتھ ریڈ زون کی طرف روانہ ہو گئے- دونوں مارچ کے شرکاء اپنے راستے کی رکاوٹوں کو کرینوں کے زریعے ہٹاتے ھوے اور پولیس اہلکاروں پر گل پاشی کرتے ھوے ریڈ زون میں داخل ہو گے- حکومت نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ھوے کسی قسم کے طاقت کے استعمال سے گریز کیا- شاید اس کی ایک وجہ مارچ کے شرکاء کا انتہائی پرامن رہنا بھی تھا-
جب عوام کا جم غفیر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچا تو مارچ میں شریک ہر فرد کامیابی کے جذبے سے سرشار تھا- ملّی نغموں اور ترانوں کی دھن پر اپنی کامیابی کی خوشی میں جھومتے اور پرچم لہراتے رہے مارچ کے شرکاء نے جشن کا سماء باندھ دیا-
اسی دوران آئی ایس پی آر کی طرف سے ایک پریس ریلیز جاری ہوئی جس میں کہا گیا کہ ریڈ زون میں موجود تمام عمارتیں ریاست کی علامت ہیں جن کی حفاظت پر فوج مامور ہے اور جن کی حرمت کا احترام کیا جانا چاہیے- ساتھ ہی ساتھ اس میں تمام فریقین کو موجودہ تعطل کوصبر اور دانشمندی کے ساتھ بامعنی مزاکرات کے ذریعے حل کرنے کی تلقین کی گئی-
ٹویٹر پر آزادی اور انقلاب مارچ کے حوالے سے مختلف ردعمل سامنے آئے- جہاں لوگوں نے مارچ کے مقاصد کو صحیح کہا وہیں اس کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار بھی کیا- مختلف سیاسی شخصیات کی طرف سے جمہوریت کو بچانے اور بات چیت کے زریعے معاملات کا حل نکلنے پر زور دیا گیا جبکہ چند نے کھل کر اس کی حمایت یا مخالفت بھی کی-
دونوں مارچ ریڈ زون میں پہنچ گئے ہیں لیکن اب کیا ہو گا؟ کیا معاملہ نواز شریف اور شہباز شریف کے استعفوں پر ختم ہو جائے گا یا اسمبلیاں بھی ٹوٹیں گی؟ اِن ہاؤس تبدیلی آئے گی یا مڈ ٹرم انتخابات ہوں گے؟ اور اگر مڈ ٹرم انتخابات ہوں گے تو نگران سیٹ اپ کون اور کس طرح تشکیل دے گا؟ انتخابی اصلاحات کیسے عمل میں لائی جائیں گی؟ صاف اور شفّاف انتخابات کیسے ممکن ہوں گے؟ ہر جانب انہی سوالات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے-
آج دونوں لیڈر اپنی اگلی حکمت عملی پیش کریں گی- ہم دعاگو ہیں کہ جو بھی ہو ایسا ہو کہ جس میں جیت پاکستان اور پاکستانیوں کی ہو- آمین